تحریر : علی رضا
کراچی کی سڑکیں ویسے ہی ٹوٹی پھوٹی ہیں جیسے اس شہر کے وعدے بارش ہو تو نالیاں بہہ نکلتی ہیں اور دھوپ نکلے تو گرد و غبار مگر اصل تماشا وہ ہے جب سڑکوں پر سیاست کے ٹھیکے بٹتے ہیں
کہانی شروع ہوئی ایک فائبر آپٹک کی جال ڈالنے پر ، مزدور زمین کھود رہے تھے کوئی کہتا تھا اجازت ہے کوئی کہتا تھا نہیں پھر ٹاؤن چیئرمین صاحب آ گئے وہی فرحان غنی صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی
اب تنظیمی صدر کا بھائی ہے تو طاقت کا سرٹیفیکیٹ بھی ساتھ لاتا ہے سرکاری افسر نے بتایا میں سرکاری آدمی ہوں یہ زیادتی نہ کرو مگر طاقت کے نشے میں سرکاری شناخت کا کیا وزن؟
نتیجہ تشدد ، مارپیٹ، شور شرابا اور پھر مقدمہ میں دہشت گردی اقدامِ قتل، دھمکیاں سب کچھ ڈال دیا گیا
جیسے کراچی کی سیاست میں ہر دفعہ ڈال دی جاتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایف آئی آر درج ہو رہی تھی تو وہ فون کیوں بج رہے تھے؟ اور کیوں یہ خبر اڑ رہی تھی کہ بڑے بڑے ہاتھ بیچ میں پڑ گئے مگر کسی کی نہ چلی؟
رات گئے تھانے کے باہر پیپلز پارٹی کارکنوں کا جمگھٹا تھا لیکن یہ جمگھٹا بے آواز تھا نہ سعید غنی بولے نہ پارٹی نے بیان دیا جیسے شہر کے اندھیرے میں کوئی سانپ رینگ جائے اور سب پتھر کے ہو جائیں
صرف شہری ہی نہیں مئیر کراچی بھی سوال کرتے ہیں کہ ٹاؤنز میں روڈ کٹنگ کے نام پر کروڑوں روپے گئے کہاں؟ سڑک بنی کیوں نہیں؟ اگر بنی تو ٹوٹی کیوں؟ اور اگر نہیں بنی تو پیسہ کس جیب میں گیا؟
سوئی گیس کے کروڑوں روپے ، کیبل ، پی ٹی سی ایل ، واٹر لائن ، کے الیکٹرک سمیت دیگر وجوہات پر نئی سڑکیں تک بنتی ہے اوربے رحمی سے کاٹ دی جاتی ہیں
مگر اصل سوال یہ نہیں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عوامی نمائندہ مار پیٹ، گالم گلوچ اور لاٹھی ڈنڈے کے زور پر اپنا جاہ و جلال دکھائے گا؟ یہ کون سا جمہوری طرزعمل ہے؟ یہ تو محض طاقت کا تماشا ہے مگر کبھی سیر پر سوا سیر بھی ٹکرا جاتا ہے
اب مقدمہ درج ہے ملزم کہتا ہے عدالت میں بے گناہی ثابت کروں گا مگر عوام پوچھتے ہیں عدالتیں کب تک ان سیاستدانوں کی بے گناہی یا گناہی طے کرتی رہیں گی جبکہ ان کے ماتحت سڑکیں، نالیاں اور ادارے دم توڑتے جا رہے ہیں؟
یہ واقعہ معمولی نہیں یہ پہلی بارش کی وہ “بوندا باندی” قرار دی جارہی ہے جس کے بعد طوفان آنے والا ہےاور کراچی کے عوام جانتے ہیں کہ ہر طوفان کے بعد، سڑکیں اور خواب دونوں مزید ٹوٹتے ہیں