پاکستان کے معروف قانون دان اور سینئر وکیل شمس الاسلام کے قتل کے مقدمے میں نیا رخ اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر ایک ایسا ویڈیو بیان وائرل ہوا جس میں ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس نے شمس الاسلام کو قتل کیا اور یہ عمل اس نے ذاتی انتقام کے تحت انجام دیا
یہ ویڈیو بیان عمران آفریدی کے نام سے سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں موجود شخص نہ صرف قتل کا اعتراف کرتا ہے بلکہ اس دعوے کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ وہ قانون سے مایوس ہو کر خود انصاف لینے پر مجبور ہوا
“قانون نے ساتھ نہیں دیا، اکیلا بدلہ لیا”
ملزم نے وڈیو میں کہا ہے کہ
“میرے والد کو اغوا کیا گیا اُن پر جھوٹا الزام لگا کر مارا گیا، اور پھر انصاف کے دروازے میرے لیے بند کر دیے گئے
ویڈیو بیان میں اُس نے الزام عائد کیا کہ اُس کے والد کے قتل میں شمس الاسلام سمیت چند دیگر افراد ملوث تھے اور کسی بھی قانونی فورم پر اُسے داد رَسی نہ ملنے کی صورت میں اُس نے خود قدم اٹھایا ملزم نے مزید کہا کہ اس واقعے میں اُس کے خاندان یا کسی اور فرد کی کوئی معاونت شامل نہیں
نہ کسی نے میری مدد کی، نہ کسی کو میں نے اعتماد میں لیا۔ میں نے یہ فیصلہ خود کیا اور اسے اکیلے انجام دیا
تاہم آزاد ذرائع سے اس ویڈیو کے مواد، دعووں اور بیانات کی تصدیق تاحال ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ ویڈیو میں ملزم کی شناخت، مقام، اور وقت کے بارے میں کوئی واضح تفصیل نہیں دی گئی
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ ویڈیو کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس کے فرانزک تجزیے کے بعد ہی کسی حتمی رائے تک پہنچا جا سکتا ہے
شمس الاسلام کے قتل کی تحقیقات پہلے ہی جاری ہیں اور یہ بیان اگر درست ثابت ہوتا ہے تو کیس کے رخ کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔
فی الحال حکام نے ویڈیو میں دعویٰ کرنے والے شخص کی شناخت یا اُس کی قانونی حیثیت سے متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا یہ ویڈیو ایک طرف ملک میں انصاف کے نظام پر سوالات اٹھاتی ہےتو دوسری طرف یہ بھی واضح کرتی ہے کہ ذاتی انتقام کی آگ، قانونی عمل کو کتنا خطرناک انداز میں نظرانداز کر سکتی ہے
کیا یہ بیان محض ایک ڈرامائی دعویٰ ہے؟
یا پھر واقعی یہ ایک ایسا انکشاف ہے جو شمس الاسلام کے قتل میں اصل کرداروں کی نشاندہی کر رہا ہے؟اس واقعے نے نہ صرف قانونی حلقوں کو چونکا دیا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی گہرے ردِ عمل کو جنم دیا ہے۔